ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ حضورﷺ کی کوئی انوکھی بات جو آپؓ نے دیکھی ہو وہ سنا دیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضورﷺ کی کونسی بات متبرک اور انوکھی نہ تھی ہر بات انوکھی تھی ایک دن رات کو تشریف لائے اور میرے پاس لیٹ گئے پھر فرمانے لگے چھوڑ میں تو اپنے رب کی عبادت کروں ‘یہ فرما کر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور رونا شروع کیا یہاں تک کہ آنسو سینہ مبارک تک بہنے لگے‘ پھر رکوع فرمایا اس میں بھی اسی طرح روتے رہے یہاں تک کہ حضرت بلالؓ نے آکر صبح کی نماز کے لیے آواز دی ‘میں نے عرض کیا :یا رسول اللہﷺ آپ اتنے روئے حالانکہ آپ معصوم ہیں مغفرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر میں شکر گزار نہ بنوں ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں ایسا کیوں نہ کرتا حالانکہ آج مجھ پر یہ آیتیں نازل ہوئیںاِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ آل عمران کا اخیر رکوع یہ متعدد روایات میں آیا ہے کہ حضورﷺ رات کو اس قدر لمبی نماز پڑھا کرتے تھے کہ کھڑے کھڑے پائوں پر ورم آگیا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپؐ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں حالانکہ آپﷺ بخشے بخشائے ہیں آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
حضرت عمر ؓ کا اپنی بیوی کو مشک تولنے سے انکار
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں ایک مرتبہ بحرین سے مشک آیا ارشاد فرمایا کہ کوئی اس کو تول کر مسلمانوں میں تقسیم کردیتا آپؓ کی اہلیہ حضرت عاتکہؓ نے عرض کیا میں تول دوںگی‘ آپؓ نے سن کر سکوت فرمایا تھوڑی دیر میں پھر یہی ارشاد فرمایا کہ کوئی اس کو تول دیتا تاکہ میں تقسیم کردیتا آپ کی اہلیہؓ نے پھر یہی عرض کیا آپؓ نے سکوت فرمایا تیسری دفعہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ تو اس کو اپنے ہاتھ سے ترازو کے پلڑے میں رکھے اور پھر ان ہاتھوں کو (بے دھیانی میں)اپنے کپڑوں پر پھیر لے اور اتنی مقدار کی زیادتی مجھے حاصل ہو۔
(فائدہ) یہ کمال احتیاط تھی اور اپنے آپ کو محل تہمت سے بچانا ورنہ جو بھی تولے گا اس کے ہاتھ کو تو لگے ہی گا اس لیے اس کے جواز میں کوئی ترددنہ تھا لیکن پھر بھی حضرت عمرؓ نے اپنی بیوی کے لیے اس کو گوارہ نہ فرمایا حضرت عمر عبدالعزیز جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ان کے زمانہ میں ایک مرتبہ مشک تولا جارہا تھا تو انہوں نے اپنی ناک بند فرما لی اور ارشاد فرمایا کہ مشک کا نفع تو خوشبو ہی سونگھنا ہے (فائدہ) یہ ہے احتیاط ان صحابہؓ اور تابعینؒ کی اور ہمارے بڑوں کی پیشوائوں کی۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور اقدسﷺ کو اطلاع دی کہ بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان سے خلاصی کی کیا صورت ہے انہوں نے کہا قرآن شریف کتاب اللہ پر عمل بھی فتنوں سے بچنے کا کفیل ہے اور اس کی تلاوت کی برکت بھی فتنوں سے خلاصی کا سبب ہے حدیث میں ہے کہ جس گھر میں کلام پاک کی تلاوت کی جاتی ہے سبکبنہ اور رحمت اس گھر میں نازل ہوتی ہے اور شیاطین اس گھر سے نکل جاتے ہیں فتنوں سے مراد خروج دجال فتنہ تاتا (وغیرہ علماء نے بتائے ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ایک طویل روایت میں حدیث بالا کا مضمون وارد ہوا ہے کہ حضرت علیؓ کی روایت میں وارد ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا کہ حق تعالیٰ شانہ تم کو اپنے کلام کے پڑھنے کا حکم فرماتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قوم اپنے قلعہ میں محفوظ ہو اور اس کی طرف کوئی دشمن متوجہ ہو کہ جس جانب سے بھی حملہ کرنا چاہے اسی جانب سے اللہ کے کلام کو اس کا محافظ پائے گا اور وہ اس دشمن کو دفع کردے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں